پیر، 30 اکتوبر، 2023

کہانیاں/افسانے بہترین 2023



 مجھے بےاختیار اپنا میٹرک کا زمانہ یاد آ گیا ہے جب ڈیٹ شیٹ گوند لگا کر الماری کے ساتھ چپکا دی جاتی تھی اور ایک کونے میں بیٹھ کر کتابوں کے درمیان “عمران سیریز” رکھ کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دن رات پڑھائی شروع کر دی جاتی تھی، ماں صدقے واری جاتی تھی کہ میرا بچہ تین گھنٹے سے مسلسل پڑھ رہا ہے- پانی تک پینے کے لیے نہیں اٹھا-

صبح پیپر دینے کے لیے اٹھتے تھے تو دل کانپ جاتا تھا، تا ہم ایسے مواقع پر ماں جی سورہ یٰسین پڑھ کر پھونک دیا کرتی تھیں اور دل مطمئن جو جاتا تھا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں- گھر سے نکلنے سے پہلے امتحانی گتے کے ہمراہ کافی سارے پین اور روشنائی کی شیشی ہمراہ رکھ لی جاتی تھی مبادا پرچے کے دوران یہ سارے پین ختم ہو جائیں-

امتحانی مرکز میں پہنچتےہی کوئی کمینہ سا لڑکا اچانک یہ کہہ کر “تراہ” نکال دیتا تھا کہ “فلاں سوال آ رہا ہے”- یہ سنتے بھی ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے اور جلدی سے کسی لڑکے سے کتاب پکڑ کر “فلاں سوال” پر ایک نظر ڈال لی جاتی تھی کہ کچھ نہ کچھ تو ذہن میں رہ جائے- پیپر شروع ہوتا اور جونہی سوالیہ پرچہ سامنے آتا فوراًالٹا کر کے رکھ لیا جاتا تھا، پہلے تین چار سورتیں پڑھ کے دعائیں مانگی جاتی تھیں، پھر پرچے کو آہستہ آہستہ الٹ کر دیکھا جاتا تھا، سوال مرضی کے ہوتے تو ٹھیک ورنہ جواب مرضی کے لکھنا پڑ جاتے تھے- جس سوال کا جواب دینا ہوتا تھا اس پر پین سے نشان لگا دیا جاتا.

ایسے میں پرچہ شروع ہوئے بمشکل آدھا گھنٹہ ہی گزرتا تھا کہ کونے سے کسی لڑکے کی آواز آتی “سر ایک شیٹ دے دیں”- اور دل اچھل کر حلق میں آ جاتا تھا، سمجھ نہیں آتی تھی کہ کمبخت نے آدھے گھنٹے میں ایسا کیا لکھ لیا ہے کہ آٹھ صفحے بھر گئے ہیں، ایسے لڑکے پرچے کے بعد فخر سے بتایا کرتے تھے کہ وہ دس شیٹیں ایکسٹرا لگا کر آئے ہیں، میری حسرت ہی رہی کہ کاش میں کم از کم ایک شیٹ ہی ایکسٹرا لگا سکوں، لیکن ایسی نوبت کبھی نہ آ سکی، الٹا جب میں پرچہ ختم کرتا تو ایک صفحہ خالی رہ جاتا-

پرچہ شروع ہونے کے مراحل بھی بڑے دلچسپ ہوا کرتے تھے، جیسے ہی سوالیہ پرچہ تقسیم ہو جاتا، قرب و جوار کے لڑکوں میں سر گوشیاں شروع ہو جاتیں، سب کا ایک دوسرے سے ایک ہی سوال ہوتا تھا “یار! صرف پہلا لفظ بتا دو”- کسی لڑکے کو اگر اتفاق سے سارے سوالوں کے جوابات یاد ہوتے تو وہ “فرعون” بن جاتا تھا، اس کا سگا بھائی بھی اس کی منتیں کرتا تو اس کی ایک نہ سنتا بلکہ شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر رہ جاتا، بلکہ کئی دفعہ تو نگران کو بھی کہہ دیتا کہ “سر! یہ دیکھیں یہ مجھے تنگ کر رہا ہے”-

پیپر کے دوران “بوٹیاں’ لگانے کا رواج عام تھا تاہم اس دور میں بڑی “دیسی” قسم کی بوٹی لگائی جاتی تھی، مثلاً باتھ روم میں کتاب رکھ دی اور بعد میں ہر دو منٹ بعد ایک پھیرا لگا آئے، یا قمیض کی اندر والی سائیڈ پر کچی پنسل سے کچھ “نوٹس’ لکھ لیے، کچھ بے باک لڑکے کاغذوں کی چٹیں بھی چھپا کر لے آتے تھے- میرا ایک دوست ایک دفعہ اسی طرح چٹ سے نقل لگاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، لیکن اول درجے کا ہوشیار تھا، اس سے پہلے کہ نگران ثبوت کے طور پر اس سے چٹ چھینتا، اس نے جلدی سے کاغذ کا گولا بنایا اور منہ میں ڈال کر نگل لیا، نگران منہ پھاڑے دیکھتا ہی رہ گیا-

سب سے دلچسپ پیپر ریاضی کا ہوتا تھا، سوال بیشک کسی کو نہ آتے ہوں، لیکن سب اپنے جواب ضرور ملا لیا کرتے تھے، اس مقصد کے لیے کلاس کے سب سے ہونہار لڑکے سے سرگوشی میں پوچھا جاتا تھا کہ جواب کیا آیا ہے؟ اگر وہ کہتا کہ 56، تو تھوڑی دیر میں سب کے پرچوں پر 56 تحریر ہو چکا ہوتا تھا- جو لڑکا سب سے پہلے پرچہ ختم کر کے اٹھتا، اسے پکا پکا فیل تصور کر لیا جاتا تھا-
مزے کی بات یہ کہ ایسے تمام تر جوابات لکھنے کے باوجود لڑکوں کی اکثریت 33 نمبر لے کر پاس ہو جاتی تھی کیونکہ الحمدللہ پیپر چیک کرنے والے بھی ہماری طرح کے ہوتے تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ “گٹھیں” ناپ کر نمبر دیتے ہیں-
اللہ ان سب کی مغفرت کرے!
آمین!

لیبلز:

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

سبسکرائب کریں در تبصرے شائع کریں [Atom]

<< ہوم